تعارف
پناہ گزین کے طریقہ کار کے دوران معلومات اور اعانت فراہم کرنے والی ایک تنظیم کی حیثیت سے، ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے کلائنٹس کو یونان میں ان کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کریں اور جب ان حقوق کی پامالی ہو رہی ہو توہم ان کی وکالت کریں۔ اسی وجہ سے، ایم آئی ٹی ان برادریوں کی آواز اٹھانا چاہتی ہے جن کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں اور اس مسئلے سے متعلق پچھلی رپورٹس میں ثبوت شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس رپورٹ کے اجراء کے ذریعے، ایم آئی ٹی ایوروس بارڈرکی صورتحال پر مزید روشنی ڈالنے اور وہاں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
دھکیلےجانےکی شہادتیں
عام طور پر ، جواب دہندگان کو 4 اسی طرح کے مراحل میں پش بیکس کا سامنا کرنا پڑا۔
- یونانی علاقے کے اندر یونانی پولیس کے ذریعہ گرفتاری
- حراست اور ذاتی ملکیت کی ضبطی
- مربوط حوالے اور منتقل کرنا
- دریائے ایوروس کے پار اجتماعی اخراج
یہ مراحل اپنے تجربات میں موجود مماثلت اور نمونوں کو ظاہر کرنے کے لئے جواب دہندگان کی مکمل شہادتوں سے متعلق کچھ اقتباسات کے ساتھ ذیل میں مزید تفصیل کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کویونانی پولیس سے ملاقات کے دوران ایک اہم موقع فراہم کرنا چاہئے کہ وہ پناہ کی درخواست اور پناہ کے طریقہ کار تک رسائی حاصل کرنے کے ارادے کا اظہار کریں۔ عام ، قانونی بات چیت کے تحت ، یونانی پولیس یونان کی سرزمین پر پناہ کے متلاشیوں سے ملاقات کرے، انہیں تھانوں میں یا پہلے استقبالیہ مرکز میں لے کے جائے، اپنا ذاتی اعداد و شمار لے اور ان کی پناہ کی درخواستیں درج کرے۔ تاہم، عام طور پر، اس قانونی عمل کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ نیچے دیئے گئے شہادتوں کے اقتباسات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جواب دہندگان کے ساتھ پولیس سے ملنے کے بعد کیا ہوتا ہے، ان کی گرفتاری کیسے منظر عام پر آتی ہے اور آخر کر ان کے پولیس کے ساتھ سامنے کرنے اور دھکیلے جانے کاتجربہ کیسے شروع ہوتا ہے۔
““جب ہم داخل ہوئے تو پولیس پہلے ہی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔”
ہم زمین کے ذریعے یونان میں داخل ہوئے اور تقریبا سات کلو میٹر کی مسافت طے کی۔ ہم پندرہ افراد تھے، جن میں مرد، خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ جب ہم مرکزی گلی کے نیچے ایک سرنگ پر پہنچے تو ہم میں سے آٹھ افراد نے اندر جانے کا فیصلہ کیا جبکہ باقی باہر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ جب ہم داخل ہوئے تو پولیس ہمارے انتظار میں تھی۔ انہوں نے ہمیں گرفتارکر لیا اور ایک لڑکے کو پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے بجلی کے ڈنڈوں سے پیٹا اور اس کا سامان چیرپھاڑ دیا۔ ہم اس کے کنبے کی طرح تھے ، لہذا ہم سب اس کے بعد بہت خوفزدہ تھے۔ اورسوچ رہے تھے کہ اب وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے؟”
““وہ بھوتوں کی طرح جنگل سے آئے تھے۔”
پہلی بار ، ہم نے ایک ساتھ دو خاندانوں [متعدد بچوں سمیت] کی طرح سفر کیا۔ ہم سب شام سے ہیں۔ شام چار بجے ہم استنبول کے سرحدی گاؤں ایڈرنےکی طرف روانہ ہوئے۔ اسوقت بہت ٹھنڈ تھی ہمیں تین دن تک ایڈرنےمیں انتظار کرنا پڑا کیونکہ موسمی حالات نے ہمیں دریا عبور کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ایک خاص مقام پر، ہمیں عبور کرنے کا موقع ملا۔ جیسے ہی ہم ندی کے دوسرے کنارے پہنچے تو ہمیں فوجی وردی میں ملبوس پولیس نے پکڑ لیا۔ مکمل اندھیرا تھا، آدھی رات کے دوران، ہم جنگل سے گھرے ہوئے تھے اور ہمارے سامنے ایک بڑی چوٹی تھی، وہ جنگل سے بھوتوں کی طرح آئے، انہوں نے ہمیں ڈرانے اور بچوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ”
پولیس کے ذریعہ گرفتار ہونے کے بعد، بہت سے سیاسی پناہ کے متلاشیوں نے بغیر کھانے اور پانی کی رسائی کے، نظربندی کی وجہ بتائے بغیر، اور پناہ کی درخواست کرنے کے حق کے بغیر، گھنٹوں حراست میں رہنے کی اطلاع دی ہے ۔ جب کہ حراستی مراکز اور پولیس اسٹیشنوں میں، جواب دہندگان کو عام طور پر خاموش رہنے کو کہا جاتا تھا، انھیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوکر برہنہ ہونے کو کہا گیا، اور ان کا ذاتی سامان لے لیا گیا۔
ایس ایس، اپنی بیوی، جوان بیٹے اور دو دیگر کنبوں کے ہمراہ ایروس ندی پر 5 گھنٹے چلنے کے بعد پکڑا گیا تھا۔
““میری بیوی نے ان سے دودھ مانگا ، لیکن انہوں نے انکار کیا۔”
پھر یونانی پولیس آئی۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ ہمیں ترکی واپس نہ بھیجیں۔ اس [پولیس اہلکار] نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے ، لہذا ہم اس کے ساتھ کار میں سوار ہوگئے۔ ہم صرف تین کنبے تھے اور ہم سب اس میں فٹ تھے۔ ہمیں دریا کے قریب والی جگہ پر پہنچنے تک آدھے گھنٹے کا وقت لگا۔ وہ ہمیں ایک دو کیمپوں کی طرح فوجی سائٹ کے ساتھ والی جگہ پر لے گئے۔ تقریبا ایک بجے کا وقت تھا۔ وہاں، انہوں نے ہم سب کو ایک چھوٹے سے کمرے میں خواتین اور بچوں کو بھی ساتھ رکھا۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے ہمیں چیک کیا اور ہمارا سامان لے گئے۔ وہ کسی فوجی جگہ کے چھوٹے سے حراستی مرکز کی طرح تھا۔ اس کمرے میں کچھ نہیں تھا۔ میرا بیٹا بہت رو رہا تھا۔ میری بیوی نے ان سے دودھ مانگا ، لیکن انہوں نے انکار کیا۔ ہر آدھے گھنٹہ کے وقفے سے پولیس مزید لوگوں کو لا رہی تھی جو ہمارے گروپ کا حصہ نہیں تھے۔ آخر کار، اس حراستی مرکز کے اندر تقریبا ساٹھ یا ستر، پوری دنیا سے مختلف افراد، افغانی، پاکستانی اور شامی وغیرہ شامل ہو گۓ۔ کمرہ بیحد بدبودار تھا، اور میرا بیٹا لگاتاررو رہا تھا۔ دروازے کے آگے ایک ردی کی ٹوکری تھی۔ بچا روتا رہا اور میری اہلیہ بھی-”
““جب ہم نے پانی مانگا تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ کہنے لگا کہ بیت الخلا کا پانی پی لو۔”
پھر، وہ ہمیں سرحد پر واقع اپنے ہیڈ کوارٹر لے گئے ، ہماری تلاشی لی اور جیل میں ڈال دیا ۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں اور ہمارے تمام بیگ چیک کیے۔ انہوں نے ہمارے فون لئے۔ اور جب ہم نے کھانا اور پانی طلب کیا تو انہوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ انکا ہمارے ساتھ بہت سخت رویہ تھا۔ ہم نے اپنے بیٹے کے لئے دودھ مانگا (اس وقت اس کی عمر 8 ماہ تھی) ، لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ جب ہم نے پانی طلب کیا تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ انہوں نے کہا کہ، ‘بیت الخلا کا پانی پی لو’، لہذا ہمیں گندا پانی پینے پر مجبور کیا گیا۔ پھر میں رونے لگی۔ میں نے روتے ہوئے کہا ، ‘ہم جنگ کے ایک ملک سے آئے ہیں۔ ہم بین الاقوامی تحفظ کی طلب کرنے آتے ہیں اور پھر ہمیں یہ ملتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا ،’یہاں ذمہ دار کون ہے؟’ انہوں نے مجھے بتایا کہ کپتان یہاں نہیں ہے۔ وہ شام کو پہنچےگا اور پھر وہ فیصلہ کرے گا کہ آپ کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ ”
ایم آئی ٹی کی جمع کی گئی متعدد شہادتوں میں، سیاسی پناہ کے متلاشیوں نے بتایا کہ وہ پولیس کے ذریعہ گرفت میں آنے، ان کو حراستی مرکز میں لے جایا جاتا، اور رات کے وقت ’کمانڈو‘ گروپوں یا سیاہ ماسک پہنے افراد کے ہاتھ منتقل کر دیا جاتا۔ اگرچہ دھکیلے جانے میں پولیس کی شمولیت کی پوری حد کا تعین کرنا ابھی بھی مشکل ہے، لیکن وہ کم از کم پناہ کے متلاشیوں کو کمانڈو گروپس کے حوالے کرنے میں ملوث ہیں، اورشاید خود اس دھکیلے جانے میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے، اس باب میں موجود شہادتیں یونانی پولیس کی شمولیت، سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو پُرتشدد اورغیرقانونی گروہوں کے حوالے کرنے کی مربوط کوششوں پر مرکوز ہے۔
اے جے اور اس کی اہلیہ کو دریا عبور کرنے کے 30 منٹ بعد پکڑ لیا گیا۔
““ہم ندی پر پہنچے جہاں عام پولیس نے ہمیں کمانڈوز کے حوالے کیا۔”
انہوں نے (پولیس) ہمیں مارا پیٹا ، وہ ہمارا سامان، ہمارے بیگ ، فون، ہمارے پاس تین آئی پیڈ تھے جو وہ لے گۓ، اور ہمیں جیل لے جایا گیا۔ کیونکہ جیل بھرا ہوا تھا، لہذا وہ ہمیں سرحد پر لے گئے۔ جب ہم ندی پر پہنچے تو عام پولیس نے ہمیں کمانڈوز کے حوالے کردیا۔ جنہوں نے اپنے چہرے ماسک سے ڈھانپ رکھے تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ ہمیں ہمارا سامان واپس کردیں۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھی تھی۔ انہوں نے ہمیں مارا اور کہا۔ “اپنی چیزوں کے بارے میں بات نہ کرو”۔ اورہمیں چھوٹی کشتیوں میں ڈال دیا۔ اور ہمیں بتایا کہ دریا کے اس پار ترکی کی حدود کو پار کریں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ہم سے پانی بھی لےلیا۔ لہذا، ہمیں دریا سے پینا پڑا ، کیونکہ ہم بہت پیاسے تھے۔ ”
““پولیس نے انہیں بلایا اوردریا کے پاس انتظار کرنے کو کہا تھا۔”
کمانڈوز، وہ لوگ جو ہمیں وین سے دریا تک لے کے آئے اور کشتیوں میں بٹھایا، ماسک پہنے ہوئے تھے۔ ان کے بھاری پٹھے اور جسم مضبوط تھے ۔ انہوں نے فوجی سیاہ سبز رنگ کی وردی پہن رکھی تھی، ان کے بال نہیں دیکھے جا سکتے تھے۔ ان کی آنکھوں کے سوا سب کچھ چھپا ہوا تھا۔ سب کے پاس ماسک، کالے ماسک تھے۔ پولیس نے انہیں بلایا تھا اور دریا کے پاس انتظار کرنے کو کہا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ آدمی وہاں کھڑے تھے ، اور کشتی انہوں نے پہلے ہی تیار کرلی تھی۔ ان کے ساتھ ہی ایک بڑی کار کھڑی تھی۔ ان میں سے پانچ لوگ ہتھیاروں ، بندوقوں کے ساتھ تھے جو لوگوں کی طرف تانے ہوۓ تھے۔ اور ان میں سے تین تھے جو یہ چیک کر رہے تھے کہ مہاجروں کے پاس کچھ ہے یا نہیں۔ وہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ اشارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ میں ان کی طرف سے کوئی لفظ نہیں سن سکا۔ انہوں نے ہم سے بھی اشاروں میں بات کی۔ ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ نہ ان کے ساتھ، اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ۔- ”
دریائے ایوروس کے اس پارپناہ گزینوں کا اجتماعی اخراج، دھکیلے جانے کا آخری حصہ ہے۔ عام طور پر،پناہ کے متلاشیوں کو ندی کے منتظر گروپ کے حوالے کرنے کے بعد ان کو چھوٹی کشتیوں میں ڈال کر ترکی کے دریا کے کنارے بھیجا جاتا ہے۔ یہ عمل عام طور پر رات کے وقت ہوتا ہے جب مجرموں کے چہروں کو دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔
ایس او کو یونانی پولیس کے ہمراہ دو مختلف حراستی مراکز میں لے جایا گیا۔ دوسرے حراستی مرکز پر، بھیس بدل کر اور ماسک پہنے ہوئے مرد اندر آئے۔ انہوں نے سب کو پکڑ لیا اور سرحد پر لے گئے اور دریا کے پار پیچھے دھکیل دیا گیا۔
““میں خدا کی قسم کھاتا ہوں۔ یہ واقعی کسی فلم کی طرح تھا۔ یہ خوفناک تھا۔ “
سرحد کے قریب دوسرے حراستی مرکز میں جہاں بھیس بدلے لڑکوں نے ہمیں سوارکیا، وہاں تین افراد ماسک لے کرایک بڑی کار میں حراستی مرکز میں آئے۔ اور ہم سب کو اندرسوارہونے کو کہا۔ اور پھر، کمانڈوز ایک چھوٹی کار میں ہمارے پیچھے تھے۔ وہ حلقوں میں گھوم رہے تھے ، اور سورج غروب ہونے کے بعد ہم کہیں ٹھہر گئے۔ ندی پر انہوں نے ہمیں گاڑی سے باہراترنے کو کہا۔ وہ ہم پر دباؤ ڈال رہے تھے، ہمیں دھکیل رہے تھے، ہمارے ساتھ برا سلوک کر رہے تھے۔ ایک حاملہ عورت تھی، اور وہ اس پر دباؤ ڈال رہے تھے- کیونکہ وہ ان پر چیخ رہی تھی۔ اس کا شوہر انہیں روکنے آیا، لیکن ماسک والے مردوں نے اسے لاٹھیوں سے مارا۔ وہ ہمیں یہ کہتے ہوئے دباؤ ڈال رہے تھے کہ “جاؤ، ملاکا جاؤ!” انہوں نے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے ہم بھیڑ ہیں، انہوں نے ہمیں کیچڑ میں دھکیل دیا، ہم بچوں کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں خدا کی قسم کھاتا ہوں۔ یہ واقعی کسی فلم کی طرح تھا۔ یہ خوفناک تھا۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ یہ رات کے وسط میں تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے، کہاں جانا ہے، صرف مدد کے لئے چیخنا ہے۔”
““ہم اپنے جوتوں کے بغیر ہی ترکی کی سرزمین گئے تھے۔”
میں سواۓ آنکھوں کے ان کے چہرے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ کالے ماسک سے ڈھکے ہوئے تھے۔ وہ ہم سے ہاتھوں کے اشاروں سے بات کر رہے تھے ، ہمیں ڈرانے کے لئے ہماری طرف اشارہ کر رہے تھے ، اور انہوں نے ہمیں نیچے دیکھنے کے لئے مجبور کیا اور اوپر نہ دیکھنے دیا۔ انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو چیک کیا اور ہمارے فون ہمارے بیگ، بیگ کے اندر کپڑے اور یہاں تک کہ ہمارے جوتے بھی لے گئے۔ کم سے کم وہ ہمیں صرف ہماری دستاویزات، پاسپورٹ اور رقم تو د یتے - لیکن انہوں نے ہماری دوسری چیزیں، فون اور بیگ دریا میں گرائے۔ میرا بیٹا رو رہا تھا۔ اور انہوں نے میرے بیٹے کو مجھ سے لیا۔ جب میں اپنے بیٹے کو واپس لینے گیا انہوں نے مجھے مارا۔ ان دو افراد میں سے ایک نے مجھے پیچھے سے پکڑا اور دوسرے نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ انہوں نے مجھے خاموش کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ان فوجی افراد سے التجا کی کہ کم از کم میرے بیٹے کے لئے کچھ کپڑے دے دیں۔ کیونکہ میرے بیٹے کے کپڑے بالکل گیلے تھے۔ لیکن انہوں نے ہمیں دریا کے پار پیچھے دھکیل دیا۔ ہم اپنے جوتوں کے بغیر ترکی کی سرزمین گئے- ”
جب پناہ گزینوں کو ترکی واپس دھکیل دیا جاتا ہے تو، بہت سے افراد کو گرفت، حراست میں لینے اور آخر کار انہیں اپنے اصل ممالک کی طرف دھکیلنے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ان ممالک میں بہت سے خطے جنگی سرگرم یا ایسے علاقے ہیں جہاں پناہ کے متلاشیوں کو ریاستی یا دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں ظلم و ستم ، تشدد اور یہاں تک کہ موت کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلسل ایک ملک سے دوسرے ملک پیچھے دھکیلنے کے عمل کوچین ریفلیومنٹ کہا جاتا ہے اوراسکا اضافہ موبائل انفو ٹیم کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اگرچہ یونانی حکام کی یہ عوامل غیر قانونی ہیں، لیکن افراد کو ترکی میں دھکیلنے سے پناہ کے متلاشی کو ممکنہ طور پر سزا یا محرومی کی زندگی حتی کہ موت تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
““میرے بہنوئی کم خوش قسمت تھے۔ دوسری بار اپنے بہنوئی سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد انہیں واپس شام دھکیل دیا گیا۔”
ایک بار جب ہم ترکی واپس آئے (پیچھے دھکیل کر)، ہمیں ترک فوجیوں نے پکڑ لیا اور ایک کیمپ میں نظربند کردیا۔ سب کو ترکی اور شام کی سرحد پر واقع بند کیمپ “عرفہ” منتقل کیا جارہا تھا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم شام سے ہیں کیونکہ ابھی آفرین میں حملہ شروع ہوا تھا۔ اس کیمپ میں، انہوں نے خواتین اور کنبوں کو جوان لڑکوں سے الگ کر دیا۔ میرے بہنوئی بدقسمت تھے۔ دوسری بار ہم اپنے بہنوئی سے علیحدہ ہوگئے اور انہیں واپس شام دھکیل دیا گیا۔ میرے بہنوئی کی بیوی یا فیملی نہیں تھی، لہذا دو دن بعد انہیں واپس ادلیب میں دھکیل دیا گیا - وہ جگہ جہاں کردش لوگوں سے نفرت سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ جب وہ ادلیب پہنچے توان کے پاس فون نہیں تھا۔ تین دن تک وہ ادلب کی ایک جیل میں رہے، اور ان اسلامی فوجیوں نے ان ک تحقیقات کی۔ اور جنہوں نے انہیں جیل میں رکھا انہوں نے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ”
““میں ترکی میں سیاسی پناہ حاصل نہیں کرسکتا۔”
ایڈرنے [یونانی سرحد کے قریب ترک شہر] سے 70 کلومیٹر قبل، ٹریفک پولیس نے بس کو چیک پوائنٹ پر روکا، اور انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہمارے پاس کملک (ترکی میں شامی شہریوں کے لئے عارضی رہائشی اجازت نامہ کا غیر رسمی لفظ) ہے۔ پھر، انہوں نے سرحدی محافظوں کو بلایا، جو ہمیں ہاتے[شام کے سرحدی علاقے کے قریب واقع پولیس اسٹیشن] لے گئے۔ یہاں، انہوں نے باب الحوا بارڈر کراسنگ کے راستے ہمیں شام واپس دھکیل دیا اور ہمیں رضاکارانہ واپسی پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے مجھے واپس ادلب بھیج دیا اور وہاں النصرہ فرنٹ نے مجھے پکڑ لیا۔ مجھ سے شام میں چار دن تفتیش جاری رکھی، میں نے بچوں کی تقریبات منعقد کرتا۔ یہ میرا کام تھا۔ میں نے شامی عرب ریڈ کریسنٹ کے ساتھ بھی کام کیا۔ جب انہیں اس کا احساس ہوا تو انہوں نے مجھے جانے دیا۔ دوسری کوشش [چوری سے واپس ترکی]، خدا کا شکر ہے، میں نے اس باراستنبول نکل گیا۔ مجھے آگے جاری رکھنا چاہئے۔ کیونکہ میں ترکی میں سیاسی پناہ نہیں لے سکتا۔ انہوں نے کملک کا حق چھین لیا۔ اگر میں دوبارہ پکڑا گیا تو مجھے واپس ادلب بھیج دیا جائے گا۔”
پش بیک کی اطلاع دینا اور واپسی کے حق کو سمجھنا۔
ذیل میں بتائی گئی تنظیموں کے ساتھ عام شکایات اور قانونی کاروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ موبائل انفارمیشن ٹیم ان نمائندوں سے رابطہ کرنے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے۔ اپنے تجربات کو ان کے ساتھ شریک کرنے سے آپ بعد میں آنے والوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ جو ان تجربات کو برداشت کرنے سے بچ سکیں۔
- جی سی آرـ قانونی مدد کے لئے
- یو این ایچ سی آر- عام مدد کے لئے.
- یونانی محتسب- شکایات درج کرنے کیلۓ
- فرنٹیکس- یورپی بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسیo اگر آپ کو یقین ہے کہ فرنٹیکس دھکیلے جانے میں ملوث تھے تو آپ اپنی زبان میں ان کے افسروں کی کارروائیوں کی اطلاع دے سکتے ہیں۔
اگر آپ ایم آئی ٹی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو فارم بھرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں۔
یونان میں سولڈیریٹی ناو کے وکیل مہاجرین کو سرحد پار کرنے اور یونانی پولیس سے سامنے کے متعلق مشورے دیتے ہیں تاکہ وہ پہلے اپنے حقوق سیکھیں اوراپنے جذبات کا اظہارکریں۔
- پناہ مانگیں اور دریافت کریں کہ یہ درخواست درج کی گئ ہے
- قانونی مدد طلب کریں
- ترجمان کے لئے پوچھیں
اگر کسی سیاسی پناہ کے متلاشی کو حراست میں لیا جاتا ہے تو، انھیں یہ بھی جاننے کا حق حاصل ہے کہ ان پر کیا الزام عائد کیا جارہا ہے اور اس چارج کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا عمل ہے - حالانکہ عملی طور پر اکثر اس حق کا احترام نہیں کیا جاتا ہے۔
یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ جب کہ قانونی طور پر ہر فرد کو یونان داخلہونے کے بعد پناہ مانگنے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ درخواستیں حکام کی طرف سے تشدد کے ساتھ ملتی ہیں۔